ریاض،9جون(آئی این ایس انڈیا)اگرچہ مسجد حرام اور مکہ مکرمہ میں سحر وافطار کے اوقات میں روزہ داروں کے لیے ٹھنڈے پانی کی کوئی قلت نہیں ہوتی مگرمعتمرین، روزہ داروں اور نمازیوں کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے خدائی خدمت گار رضاکارانہ طور پر چل پھر کر انہیں ٹھنڈا پانی پلاتے اوراجر وثواب کماتے ہیں۔ماہ صیام کے علاوہ مکہ مکرمہ یا کسی بھی دوسرے شہر میں ’سقا‘یعنی پانی پلانے کا رضاکارانہ کام نہیں ہوتا مگر ماہ مقدس کی برکت سے یہ پیشہ ایک دم سے زندہ ہوجاتا ہے۔ صرف مکہ مکرمہ ہی نہیں بلکہ مدینہ منورہ اور سعودی عرب کے دوسرے شہروں میں بھی افطاری کے وقت پانی پلانے والے ’سقے‘روزہ داروں کو ٹھنڈا پانی پلاتے اور معتمرین کی خدمت کرکے ڈھیروں نیکیاں سیمٹتے ہیں۔سعودی مورخ سعود محسن نے بتایا کہ سقا یعنی زائرین کو پانی پلانے کا پیشہ صدیوں پرانا اور سعودی قوم کی خوبصورت روایات میں سے ایک ہے۔ صدیوں قبل حج کے موقع پر جب دنیا بھر سے فرزندان توحید حجاز مقدس میں آتے تو وہاں کے مقامی لوگ کنوؤں سے پانی بھرکران کی خدمت میں پیش کرنے کو اپنے لیے باعث اجر خیال کرتے۔ اس طرح پانی پلانے کا نیک کام ایک پیشہ بن گیا جسے سقا یعنی فراہمی آب کا نام دیا گیا۔ سقا کے پیشے سے وابستہ افراد ان گھروں تک بھی پانی پہنچاتے تھے جہاں تک پانی نہیں پہنچ پاتا تھا۔ایک سوال کے جواب میں سعود محسن کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں مسجد حرام اور مسجد نبوی میں جو لوگ زائرین کو ٹھنڈا پانی فراہم کرتے ہیں وہ اسی پرانے پیشے کا تسلسل ہے۔ پہلے زمانے میں سقے یعنی پانی پلانے والے کھال سے بنی مشکوں میں پانی بھر کرحجاج اور معتمرین کو پیش کرتے تھے اور آج پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ان مشکوں کی ضرورت نہیں رہی۔ پانی پلانے والے کولروں میں ڈال کر بھی زائرین کو پیش کرتے ہیں۔سعودی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ ماہ صیام کے دوران مسجد حرام اور مسجد نبوی میں سحرو افطار کے اوقات میں رش غیرمعمولی حد تک بڑھ جاتا ہے۔ ایسے میں نوجوان زائرین کو ان کی جگہ پر پانی کی فراہمی کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں اور اس نیک کام میں ان کے مابین مسابقت اور مقابلے کی کیفیت رہتی ہے۔